تازہ ترین

Post Top Ad

LightBlog

جمعہ، 15 مارچ، 2019

نیوزی لینڈ میں دہشتگردی کا بدترین واقعہ، 2 مساجد میں فائرنگ سے 49 نمازی شہید

کرائسٹ چرچ: نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں فائرنگ سے 49 نمازی شہید اور 48 زخمی ہوگئے جب کہ مسجد میں موجود بنگلادیشی کرکٹ ٹیم اس حملے میں بال بال بچ گئی۔

میرا نہیں خیال کہ فیس بک اس ویڈیو کو فیس بک پہ رہنے دے گی کیوں کہ اب کی بار قتل ہونے والے مسلمان ہیں۔ "چلو اس پارٹی کی ابتدا کرتے ہیں" کا جملہ کہہ کر ایک غیر مسلم دہشت گرد 17 منٹ قتلِ عام کرتا ہے۔ پہلے ایک مسجد میں جاتا ہے وہاں پہ گولیاں برساتا ہے، اس کے بعد دوسری مسجد میں یہ جا کر قتلِ عام کرتا ہے۔ اس پورے عمل کی ویڈیو بناتا ہے اور ساتھ یہ کہتا ہے کہ "مجھے نشانہ لگانے کا تو موقع ہی نہیں مل سکا، وہاں ٹارگٹ ہی اتنے زیادہ تھے"۔ یہ ویڈیو بنا کر وہ دہشت گرد سوشل میڈیا پہ وائرل کرتا ہے اور مغربی دنیا اسے "اسلامو فوبک" یعنی "اسلام سے ڈرا ہوا ایک شخص قرار دیتی ہے"

اگر تو مسلمان ہو تو ہمیشہ دہشت گرد ہے بھلے اس کے ہاتھ سے چاقو ہی برآمد ہو جائے۔ اور اگر غیر مسلم ہے تو اسے دماغی مریض یا اسلامو فوک جیسے ہلکے پھلکے نام دے کر معاملہ نبٹا دیا جاتا ہے۔ میرا مغرب کے تمام ممالک سے سوال ہے کہ کیا کوئی ڈرا ہوا شخص بھی 27 افراد کو قتل کر سکتا ہے منافقوں؟ مجھے مغرب کے دہرے معیار پہ قطعی حیرت نہیں البتہ غصہ ضرور ہے۔ منافقت کی انتہا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہی نہیں بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کےلیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔

ہم مسلمانوں سے متعلق مغرب کا دہرا معیار اس واقعہ سے ایک اور طرح بھی واضح ہو رہا ہے۔ میں نے نیوزی لینڈ کی پولیس کا بیان پڑھا وہ عوام سے اپیل کر رہے تھے کہ اس واقعہ کی ویڈیو کو مت پھیلائیں اور ساتھ ہی یہ بیان بھی دیا کہ ہم ویڈیو کے انٹر نیٹ سے خاتمے کےلیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ حد ہے منافقت کی اور انتہا ہے دہرے معیار کی۔ ایک جانب یورپی میڈیا صدام حسین کی پھانسی پوری دنیا میں لائیو دکھاتا ہے۔داعش کے دہشت گردوں کو انسانوں کو زبح کرتے ہوئے یورپی میڈیا اپنی ویب سائیٹس، سوشل میڈیا اور چینلز کے زریعے براہِ راست دکھاتا ہے۔ مگر دوسری جانب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم یورپی یا امریکی دہشت گرد کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے تو انہیں ایک تصویر تک دکھانا گوارہ نہیں ہوتا۔

خونِ مسلم کی وقعت نا کل تھی نا آج ہے۔ وہ بے ضرر سے مسلمان تھے جو اپنی مسجد میں اللہ اللہ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے تھے۔ ایک غیر مسلم دہشت گرد اٹھتا ہے اور دو مسجدوں میں جا کر گولیوں کی بارش کر کے رفو چکر ہو جاتا ہے۔ مغرب اسے اس بندے کا دماغی مرض یا پھر اسلام کا خوف کہہ کر معاملہ ختم کر دیتا ہے۔ یہی کام اگر کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو؟ ااس وقت پوری دنیا میں ایک ہی بریکنگ نیوز چل رہی ہوتی کہ ایک مسلمان دہشت گرد نے 27 افراد کو قتل کر دیا اور مغرب کو اسلامی دہشت گردی سے شدید خطرہ ہے۔ مغرب کے مسلمانوں کے ساتھ جان بوجھ کر ایک ایسا سلوک کیا جا رہا ہے کہ نئی نسل انتقامی کاروائی پہ اتر آئے۔ اور جب مسلمان انتقامی کاروائی کریں تو اہلِ مغرب مسلمانوں پہ دہشت گردی کا لیبل مزید پختہ کر دیں۔ ہم دونوں صورتوں میں ہی غلط ہیں۔ خاموشی سے ظلم سہیں تو بھی دہشت گرد، ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں تو بھی دہشت گرد۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ صعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
تحریر: سنگین علی زادہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں